خیالوں میں گم ہے
میری ایک ہی بیٹی ہے‘ وہ بھی خیالوں میں کسی کی ہو چکی ہے۔ ایک خوبصورت لڑکے کا ذکر کرتی ہے جس کے کمر تک لمبے بال ہیں۔ وہ اس سے پہلے اکیلے میں باتیں کرتی تھی‘ اب اسے لوگوں کی موجودگی تک کا احساس نہیں ہوتا۔ہر شام اچھی طرح تیار ہوتی ہے جیسے کسی شادی میںجارہی ہے اور پھر گھر سے باہر جانا چاہتی ہے۔ میں گھر لاک کرکے رکھتی ہوں کہ بنی سنوری اکیلی لڑکی ادھر ادھر بھٹک نہ جائے۔ پہلے مجھے اندازہ نہیں تھا مگر اب بہت پریشان ہوں کہ آخر اسے کیا ہو گیا ہے۔ بیوہ ہوں اور کیا کم مسائل ہیں کہ بیٹی بھی مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ میں نے رشتے کروانے والی عورتوں سے رابطہ کیا کہ اس طرح کے کسی لڑکے کا رشتہ لائیں‘ وہ بھی کامیاب نہ ہوئیں۔ رشتہ داروں میں ذکر کیا‘ سب سنتے ہیں اور ہنس کر اڑا دیتے ہیں۔(انیسہ بیگم‘ فیصل آباد)
مشورہ:۔آپ کی بیٹی کے مسئلے کا حل شادی نہیں ہے‘ نہ ہی ایسے لڑکے کی تلاش ضروری ہے جو اس کے دماغ پر مسلط ہو گیا ہے یا جس سے وہ باتیں کرتی ہے۔ دراصل یہ اس کا تصور ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ لڑکی کے اپنے ذہن کی تخلیق ہے۔ اس کا سبب ذہنی عارضہ شیزوفرینیا ہوتی ہیں۔ اس مرض میں انسان کا دماغ ان چیزوں کو دیکھنے لگتا ہے‘ جو دوسروں کو نظر نہیں آتیں اور ایسے لوگوں سے ملنے اور گفتگو کرنے میں مصروف رہتا ہے جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ یعنی ان کی کوئی اصل حقیقت ہی نہیں ہوتی۔ ان لوگوں میں باہر کی دنیا کا شعور کم ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہونے لگتا ہے۔ یہ اپنی ہی دنیا میں مگن نظر آتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ مرض نوجوانی میں ہوتا ہے تو اکثر لوگ اس کا علاج شادی کو سمجھتے ہیں جبکہ اس طرح اور زیادہ مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور اکثر ذہنی مریضوں کی شادیاں ناکام ہو جاتی ہیں۔ آپ بیٹی کو کسی اچھی ماہر نفسیات یا سائیکا ٹرسٹ کو دکھا سکتی ہیں۔
پہلے سے بھی بہتر
میں پہلے بہت خوش اخلاق تھی‘ اب مزاج میں کافی تبدیلی آگئی ہے۔ دل و دماغ پر اداسی چھائی رہتی ہے۔ بداخلاق ہونے کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتوں کو پکڑ لیتی ہوں۔ ذہن منتشر رہتا ہے۔ نماز اور تلاوت میں بھی یہی حال ہے۔ ایک سال قبل کچھ گھریلو پریشانیاں تھیں‘ سخت صدمہ پہنچا تھا۔ بہت بیمار ہوئی تھی تب ماہر نفسیات کے پاس جانا پڑا تھا۔ چار ماہ علاج ہوا‘ طبیعت میں کافی بہتری آگئی تھی۔ اب رشتہ دار قریبی عزیز سب دشمن نظر آتے ہیں۔ پہلے ہر ایک پراعتماد کر لیتی تھی۔ اب کوئی دوست اور مخلص نظر نہیں آتا۔ منہ پھٹ ہو گئی ہوں‘ کسی کی بات برداشت نہیں کرتی‘ غصہ نہ نکالوں تو طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔ پیٹ میں تکلیف ہونے لگتی ہے‘ کبھی سر میں درد ہو جاتا ہے‘ نیند نہیں آتی‘ بے چینی رہتی ہے۔ (شاہدہ‘ملتان)
مشورہ:۔ ایک سال قبل آپ نے نفسیاتی علاج کروایا‘ چند ماہ بعد چھوڑ دیا۔ خط سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ کو مزید علاج کی ضرورت ہے۔ ذہنی امراض کا علاج زیادہ عرصے تک جاری رہتا ہے۔ دواﺅں کے استعمال سے ابتدا ہی میں بہتری آجائے تو یہ سوچ کر کہ اب طبیعت ٹھیک ہے‘ علاج ترک نہیں کرنا چاہئے بلکہ طبیعت اور مزاج میں خاطر خواہ بہتری کے باوجود دواوئیں جاری رکھی جاتی ہیں اور اپنے معالج کی ہدایت پر ہی ان میں کمی و بیشی یا انہیں روکا جاتا ہے۔ یہ بہت ہی حوصلہ افزا صورتحال ہے کہ آپ کو اپنی ذہنی کیفیت کے بارے میں آگہی ہے۔ آپکی ذہنی کیفیت پہلے سے بھی زیادہ بہتر ہو سکتی ہے۔ انہی ماہر نفسیات سے رابطہ کر لیں جن سے پہلے علاج کروایا تھا۔
ایک خیال رہتا ہے
میری عمر 20سال ہے۔ انٹر کیا ہے‘ پہلے ہمارے حالات بہت اچھے تھے۔ والد صاحب نے ہمیشہ مجھ سے پڑھنے کیلئے کہا۔ کوئی ہنر وغیرہ نہیں سکھایا۔ اب حالات خراب ہیں۔ مجھے کوئی کام نہیں آتا۔ والدہ مجھ سے شادی کے بارے میں پوچھتی ہیں تو حالات کو دیکھ کر انکار کر دیتا ہوں کہ جب تک اچھا سا کاروبار نہیں کر لیتا‘ شادی نہیں کروں گا۔ والد کہتے ہیں کہ تعلیم جاری رکھو‘ اخراجات میں دیکھ لوں گا مگر مجھے معلوم ہے کہ ایسا مشکل ہے۔ میرے ذہن میں ایک خیال گھومتا ہے کہ میری شادی ہو جائے‘ ایک گھر ہو‘ اچھا کاروبار ہو‘ خوشی کی زندگی بسر کر رہا ہوں۔ (محمد عرفان،میر پور خاص)
مشورہ:۔ حالات کو دیکھتے ہوئے آپ شادی سے انکار کر رہے ہیں لیکن ذہن میں شادی سے متعلق خیالات آرہے ہیں‘ تو یہ فطری سی بات ہے۔ آپ کی عمر میں لڑکے اس طرح سوچ سکتے ہیں۔ یہ سوچنا کوئی بری بات نہیں لیکن فی الحال شادی سے انکار کرنا بھی عقلمندی ہے۔ ہنر سیکھنے کی بات ہے تو غور کریں‘ آپ کیا کام بہتر کر سکتے ہیں اور وہ سیکھنا شروع کر دیں۔ ابتدا میں محنت زیادہ ہوگی‘ معاوضہ کم ملے گا لیکن جب آپ کام سیکھ جائیں گے تو سہولتیں حاصل ہونے لگیں گی۔ اس دوران تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھیں۔ دنیا میں ترقی کی منزل پا لینے والے لوگوں کی ابتدائی زندگی پر نگاہ ڈالی جائے تو اکثر کو ناگزیر حالات کا سامنا رہا ہے۔ آپ کو پھر حوصلہ دینے والے والدین ہیں۔ آپ کیلئے اپنی زندگی کو کامیاب بنانا زیادہ مشکل نہیں۔
ذرا سی بات پر
مجھے کسی بھی طرح ذہنی سکون نہیں ملتا۔ گھر میں والدین یا بڑے بھائی تھوڑا سا ڈانٹ دیں تو بہت مایوس ہو جاتا ہوں۔ جینے کی تمنا ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ذرا سی بات پر بہت تکلیف ہوتی ہے۔ (محمد مبین‘ گوجر خان)
مشورہ:۔ تھوڑی سی ڈانٹ پڑنے پر گہری مایوسی اس قدر کہ جینے کی تمنا ہی ختم ہو جائے‘ ٹھیک نہیں ہے۔اپنی اصلاح کریں اوررویہ بہتر کریں ۔ لیکن اگر اس طرح ڈانٹ پڑے کہ عزت نفس مجروح ہو تو گہری مایوسی ہو سکتی ہے۔ یہی بات جو ڈانٹ کر کہی جاتی ہے اگر آرام اور سہولت کے ساتھ دوستانہ ماحول میں کہی جائے تو کہیں زیادہ پراثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے۔ اگر یہ خط آپ کے والد یا بھائی لکھتے تو انہیں یہی مشورہ دیا جاتا لیکن مسئلہ آپ بیان کررہے ہیں تو آپ کو ہم یہی سمجھائیں گے کہ ان کی ڈانٹ سے نصیحت قبول کرتے ہوئے آئندہ شکایت کا موقع نہ دیں اور اگر وہ زیادہ ڈانٹیں تو ان سے نرمی سے بات کرنے کی درخواست کریں لیکن اپنے اندر جینے کی امنگ ہمیشہ بیدا رکھیں۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 295
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں